حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے شہر بہاولپور میں دوسری سالانہ انٹرنیشنل کانفرنس، ملک یار محمد ریسرچ سنٹر بہاولپور کے زیرِ اہتمام منعقد ہوئی؛ کانفرنس کا عنوان "عصرِ حاضر کے سماجی علوم میں اخلاقی چیلنجز اور اُبھرتی ہوئی پیچیدگیاں" تھا۔ کانفرنس میں مختلف ممالک کے اسکالرز اور محققین نے شرکت کی اور پاکستان بھر سے اہلِ علم و دانش نے حضوری و آن لائن اپنے تحقیقی مقالات پیش کیے۔
اسکالرز نے اپنے خطابات اور مقالات میں معاصر دنیا کے اخلاقی بحران، مغربی تہذیب کے فکری اثرات، اسلامی اخلاقیات کی ازسرنو تفہیم اور مسلم معاشروں کی نئی نسل کے لیے اسلامی تربیت کی ضرورت پر زور دیا۔

کانفرنس سے ڈاکٹر ندیم بلوچ (ڈپٹی ریسرچ ڈائریکٹر جامعۃ المصطفیٰ پاکستان)، ڈاکٹر سید عمار یاسر ہمدانی (مدیر جامعۃ المصطفیٰ پاکستان) اور جامعۃالمصطفیٰ کے ریسرچ اسکالر سکندر علی بہشتی نے بھی خطاب کیا۔
ڈاکٹر ندیم بلوچ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ مسائل اور چیلنجز اپنی جگہ ایک حقیقت ہیں، مگر اصل سوال یہ ہے کہ ان کا حل کیا ہے؟‘‘
انہوں نے موجودہ دور کے پانچ بڑے چیلنجز کی نشاندہی کی:
1. اقدار کی تبدیلی:
انسانی اقدار مادّی فائدے، لذت اور طاقت کے تابع بنتی جارہی ہیں۔
2. روحانیت کا بحران:
ہمارا دعویٰ ہے کہ اسلامی تہذیب کا محور روحانیت ہے، مگر دنیا شدید مادّیت کی طرف بڑھ رہی ہے۔
3. خاندانی نظام کی زبوں حالی:
خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور انفرادیت پروان چڑھ رہی ہے۔
4. سوشل میڈیا کے منفی اثرات:
اس نے صرف معاشرتی ڈھانچے ہی نہیں، بلکہ مساجد و دینی مراکز تک کو متاثر کیا ہے۔
5. خواتین کے کردار میں غیر متوازن تبدیلی:
پہلے خواتین کے کردار کی نوعیت مختلف تھی، اب غیر متوازن آزادی ایک بڑا چیلنج بن رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان تمام چیلنجز کا حل پیش کرنا علماء، دانشوروں اور مسلم اسکالرز کی ذمہ داری ہے۔ خاندانی نظام کا تحفظ، سوشل میڈیا کا مثبت استعمال اور خواتین کے کردار کی اسلامی اساس پر ازسرنو وضاحت ناگزیر ہے۔
ڈاکٹر سید عمار یاسر ہمدانی نے سماجی و انسانی علوم کے تناظر میں کہا کہ مسلم معاشروں میں انسانی و سماجی علوم براہِ راست مغرب سے منتقل ہوئے۔ آزادی، حقوقِ نسواں اور سماجی تصورِ حیات پر مغربی اثرات نمایاں ہیں۔نئی نسل کو اسلامی عقائد، اقدار اور نظریات سے آگاہ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی علوم کو درست پیراڈائم پر استوار کیے بغیر حقیقی فکری بیداری ممکن نہیں۔
اس سلسلے میں تین بنیادی مباحث کی درست تفہیم ضروری ہے:
1. خدا کا تصور:
خدا پر ایمان انسانی زندگی پر کیا اثر ڈالنا چاہیے؟
2. کائنات کا تصور:
انسان کائنات کو کس نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے؟
3. انسان کا تصور:
انسانی فطرت، اس کا مقصد اور اس کی ذمہ داری کیا ہے؟
انہوں نے اسلامی اور مغربی طرزِ فکر کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسلام میں وحیِ الٰہی معیار ہے، مغرب میں انسانی تجربہ۔
اسلام میں اخلاقیات مطلق اور غیر متغیر ہیں، مغرب میں نسبتی (Relativism) ہے۔
اسلام میں خاندان بنیادی اکائی ہے، مغرب میں خاندانی نظام بکھرتا جارہا ہے۔
اسلام دین و دنیا کا جامع تصور پیش کرتا ہے، مغرب سیکولرازم کا قائل ہے۔
جامعۃ المصطفیٰ کے ریسرچ اسکالر سکندر علی بہشتی نے"اسلامی اخلاقیات اور معاصر سماجی مسائل" پر اپنے مقالے کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ موضوع موجودہ تہذیبی و فکری بحران کے حل کے لیے نہایت اہم ہے۔ آج کے سماجی و اخلاقی بحران کا واحد پائیدار حل اسلامی اخلاقیات کی طرف مراجعت ہے۔ اسلامی اخلاقیات انسانی شخصیت، خاندان، معاشرے اور ریاست کی بنیاد کو مضبوط کرتے ہیں۔









آپ کا تبصرہ